the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
فلسفیانہ اور شاعرانہ عروج پر جناب حسن عبداللہ کا اردو یونیورسٹی میں لکچر
حیدرآباد، 28؍ اگست (پریس نوٹ) مرزا اسد اللہ خان غالبؔ ترقی اور ثبات کے شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے دور نے ان کی شاعرانہ عظمت کو بڑھاتے ہوئے شاعری کے نئے زاویوں کو وا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جناب حسن عبداللہ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کل ایک خصوصی نشست کے دوران کیا۔ پروفیسر محمد میاں، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ جناب حسن عبداللہ (دہلی) بہ اعتبار پیشہ انجینئرہیں، لیکن غالب سے ان کو دور طالب علمی ہی سے شغف رہا ہے۔ ان کی انگریزی تصنیف ’’The Evolution of Ghalib‘‘ (غالب کا ارتقاء) بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ انہوں نے کالی داس گپتا رضا کی تحقیق کی مدد سے مرزا غالب کی شاعری کا تاریخی ادوار پر مبنی مطالعہ کیا ہے۔ پاور پوائنٹ کے ذریعہ پیش کردہ لکچر میں انہوں نے غالب کی اردو شاعری کے 4 نمایاں ادوار کی ’’آغاز، تلاش، نکھار اور شفق‘‘ کی حیثیت سے نشاندہی کی۔ غالب کے فلسفیانہ عروج کا حوالہ دیتے ہوئے جناب حسن عبداللہ نے بتایا کہ یہ دور 1826-28 سے قبل تقریباً 30 سال پر محیط ہے، جس میں غالب ایک جدلیاتی مفکرکے طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ دوام کے بجائے تبدیلی اور ارتقاء کے حامی ہیں اور کہتے ہیں ’’نہ ہومرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ ۔ وہ نفی سے اثبات کی تلاش کرتے ہیں۔ غالب کی نظر میں انسان تضادات کا مجموعہ اور ارتقاء کا حامل ہے۔ انسان اور دنیا ہی ان کی فکر کا مرکز ہیں۔ ان کی نظر میں ارتقاء کا عمل ایک مسلسل کیفیت کا نام ہے، جو جاری ہے۔ جناب حسن عبداللہ نے اس سلسلے میں غالب کے مشہور شعر ’’نفی سے کرتی ہے، اثبات تراوش گویا:: دی ہے جائے دہن اس کو دمِ ایجاد نہیں‘‘ کا حوالہ دیا۔ تبدل کے ذریعہ ارتقاء، نفی سے اثبات کے ابھرنے کی علامت ہے۔ تضاد، تحریک، ارتقاء یا ترقی کا اصل سبب ہے۔ یہی غالب کے فلسفہ کا نچوڑ ہے۔ غالب کی شاعری بھی اسی فلسفیانہ نکتہ پر مبنی ہے۔ ان کا لفظوں کا جوڑ توڑ، تضادات کا اجتماع، نفی کی پیشکشی اور نفی کی نفی ہی جدلیاتی



حسن کے شاہکار ہیں۔ غالب کے ایسے کئی اشعار ہیں جو جدلیاتی فکر کی خوبصورت مثال ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے غالب کے شعر ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا:: نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ کا حوالہ دیا۔ جہاں تک زندگی کا معاملہ ہے غالب نے دونوں انتہائی نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ایک قابل قبول متبادل پیش کیا ہے۔ ان کی نظر میں موت ایک فطری امر اور ارتقاء کا حصہ ہے۔ ہر شئے جو پیدا ہوئی ہے اسے مرنا ہے۔ کسی بھی شئے کو دوام نہیں۔ ہر آغاز کا خاتمہ یقینی ہے۔ غالب کے خیال میں اس خاتمے سے نہ تو ڈرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی گھبرانے کی۔ جناب حسن عبداللہ نے غالب کے شاعرانہ عروج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دور مابعد 1847-51 کا ہے یعنی 50 سے 53 سال پر محیط ہے۔ یہ غالب کے فنکارانہ عروج کا دور تھا، جہاں وہ کہتے ہیں ’’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا:: ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا‘‘۔ غالب کی نظر میں انسانی وجود ہی خدا کے وجودِ ازلی و ابدی کو اہمیت بخشتا ہے۔ غالب نے اپنی شاعری میں غمِ جاناں اور غم روزگار دونوں کو جگہ دی ہے۔ ان کا دل دونوں کے دکھ سمجھتا ہے۔ انسان کے لیے صرف محبت کا جذبہ کافی نہیں، مادی ضروریات کی تکمیل بھی ضروری ہے۔ جناب حسن عبداللہ نے لکچر کے آخر میں کہا کہ غالب کی یہی خصوصیات انہیں اردو کا مقبول ترین شاعر بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہ اپنی معنویت اور دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ابتداء میں پروفیسر محمد میاں نے مہمان مقرر کا تعارف پیش کیا اور ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب حسن عبداللہ، جامعہ ملیہ کے اردو میڈیم اسکول کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ اس موقع پر مدعو حاضرین نے شرکت کی اور مقرر کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کیا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، رجسٹرار کے علاوہ ڈینس، پروفیسرس اور شہر سے آنے والی ممتاز شخصیتیں موجود تھیں۔ عابد عبدالواسع ، اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر نے کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.